خواتین کے حق وراثت کے متعلق سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ



سوال:۔محترمی مولانا سلیمان بنوری صاحب! آپ کا کالم جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے گزشتہ تین چار ہفتوں سے  جنگ کے صفحے پر شائع ہورہا ہے۔ آپ نے بروقت اور میرے خیال میں شاید سب سے پہلے اس پر قلم اٹھایا  اورتفصیل سے اس کے تمام پہلوؤں پر بحث کی  اور اس کی خامیوں کو واضح کیا ،ہم اورتمام قارئین  اس معلومات افزا کالم پر آپ کے شکر گزار ہیں۔میں امید رکھتا ہوں کہ میرے آج کے سوال پر بھی آپ شرعی پہلو سے رہنمائی فرمائیں گے۔آپ کی نظر سے گزرا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے ایک وراثت کے مقدمے میں قراردیا ہے کہ خواتین صرف اپنی زندگی میں اپنی وراثت کا دعوی کرسکتی ہیں اور اگر وہ اپنی زندگی میں مطالبہ نہ کریں تو ان کے بعد ان کی اولاد کو دعوی کا حق نہ ہوگا۔کیا شریعت کا بھی یہی فیصلہ ہے جوسپریم کورٹ کا فیصلہ   ہے؟
 
 
جواب:۔سپریم کورٹ  کا فیصلہ مقدمہ کے حقائق کے مطابق درست ہے۔اخبارات میں مقدمے کی صورت  اس طرح نقل کی گئی ہے کہ ایک شخص عیسیٰ خان نے ۱۹۳۵ ء میں اپنی جائیداد اپنے بیٹے عبدالرحمن کو منتقل کردی اور دونوں بیٹیوں کو حصہ نہیں دیا۔۲۰۰۴ء میں عیسی ٰ خان  کے نواسوں نے عیسی ٰ خان کی جائیداد میں  اپنی وفات شدہ ماؤں کا حصہ حاصل کرنے کے لیے مقدمہ دائرکیا اورپشاور کی مقامی سول عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا۔بعدازاں پشاورہائی کورٹ  نے سول عدالت کے فیصلے کو کالعدم قراردیا۔عیسیٰ خان کے نواسوں نے پشاورہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی  اورسپریم کورٹ نے نواسوں کی اپیل کوخارج کردیا اورپشاورہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔اگر مقدمے کے حقائق یہی ہیں تو فیصلہ  مقدمے کے حالات کے مطابق اس وجہ سے درست ہے کہ جو جائیداد عیسیٰ خان نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کو منتقل کردی تھی وہ جائیداد عیسیٰ خان   کی ملکیت سے نکل کراس کے بیٹے کی ملکیت میں داخل ہوگئی تھی اورجس وقت عیسیٰ خان کا انتقال ہوا اس وقت مذکورہ جائیداد  عیسیٰ خان کی ملکیت نہ تھی اوراس کی ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے انتقال کے بعد وراثت کے قاعدے کے مطابق ورثاء کو منتقل  نہ ہوئی  اس وجہ سے نہ  عیسی ٰ خان کی بیٹیوں کو اس میں وراثت کے مطالبے کا حق تھا اورنہ ہی  بیٹیوں کی وفات کے بعد اس کی اولاد کو حق وراثت  کے دعوی کاحق حاصل ہے البتہ اگر عیسیٰ خان نے حین حیات  جائیداد اس طرح بیٹے کو منتقل کی ہو کہ بیٹیوں کو یکسر محروم رکھا ہو تو اولاد میں مساوات نہ  کرنے کی وجہ سے وہ گناہ گارضرورہوا ہے جس  کی سزا کا وہ مستحق ہے مگر مالک ہونے کی  حیثیت سے اس کامالکانہ تصرف نافذ تھا اور جس کو اس نے ملکیت بخشی  تھی  وہ مالک ہوگیا  تھا۔ اس صورت  میں جب  کہ عیسی ٰخان نے جائیداد  اپنی زندگی میں بیٹے  کے قبضے میں دے دی ہو  ،یہ سوال غیر اہم ہے کہ اس کی بیٹیاں جائیداد سے دستبردار ہوئی تھیں یا نہیں اور انہوں نے دعوی کیا تھا یا نہیں ۔یہ سوال غیر متعلقہ اور شریعت کی رو سے غیر اہم  اس وجہ سے ہے کہ بیٹیوں کو حق دعوی  حاصل ہی نہ تھا ا س لیے ان کا دعوی یا ترک دعوی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔الغرض کوئی شخص اپنی حین حیات  اپنی مملوکہ جائیداد اپنی اولاد میں سے کسی ایک کومنتقل کردے اوراگرمنتقلی بلامعاوضہ ہو تو اسے جائیداد کا قبضہ  بھی حوالے کردے تو اس شخص کی دیگر اولاد کو اس شخص کی زندگی میں یا وفات کے بعد اس جائیداد میں وراثت کے مطالبے کا حق نہیں ہے۔اگر مقدمے  کے یہی حقائق  تھے تو عدالت عظمی کا مدعیان کا دعوی  مسترد کرنا اور عدالت عالیہ کافیصلہ برقرار رکھنا ازروئے شریعت درست  ہے اوراس فیصلے میں شریعت  عدالت کے فیصلے سےمتفق ہے۔
عدالت عظمی ٰ کے فیصلے  کو اخبارات کو نے جس شہ سرخی کی ساتھ نقل کیا ہے وہ  یہ ہے کہ''خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا،خواتین زندگی میں اپنا حق نہ لیں تو ان کی اولاد حق دعویٰ نہیں کرسکتی۔''عدالت عظمی ٰ  کے فیصلے  اورفیصلوں کا ایک ایک حرف اہمیت رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے دوچار یوم قبل عدالت نے یہ فیصلہ صادر کیا ہے اوراس کے بعد استفسارات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے ، علمی اورعوامی حلقوں میں بھی یہ فیصلہ موضوع بحث ہے۔اگر چہ سپریم کورٹ کا فیصلہ خاص اس مقدمے کے حالات وواقعات  کے مطابق درست ہے  مگر فیصلے کہ یہ الفاظ کہ:'' خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا اورخواتین زندگی میں اپنا حق نہ لیں تو اولاد حق دعوی نہ کرسکتی۔''یہ الفاظ اس عموم کے ساتھ درست نہیں ہیں۔ان الفاظ سے عوامی حلقوں میں  وسیع پیمانے پر غلط فہمی پیدا ہوئی  ہے (جاری ہے)
 
 ''خواتین کو وراثت میں حق اپنی زندگی میں ہی لینا ہوگا، خواتین زندگی میں اپناحق نہ لیں تو ان کی اولاد حقِ دعویٰ نہیں کر سکتی