عیدی کی شرعی حیثیت
سوال :۔عید کے دن لوگ ایک دوسرے کو پیسوں کی شکل میں عیدی تقسیم کرتے ہیں کیا یہ عیدی تقسیم کرنا درست ہے؟
کیا قرآن و حدیثمیں عیدی تقسیم کرنے کی کوئی دلیل ملتی ہے، کیا آ پ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں عیدی تقسیم کی ہے؟کیونکہ ہم لوگ غریبوں کو چھوڑ کر اپنے بھائی بہنوں کے بچوں کو عیدیخوبتقسیم کرتے ہیں اور اس میں ہمارے بچے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں کہ کس کی عیدی زیادہ ہوئی ہیں وغیرہ وغیرہ ،براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں اللہ حافظ۔(دانش زیب راولپنڈی)
جواب:۔عیدی دینادرست ہے۔اس کی حیثیتتحفہاورہدیہ کی ہےاورہدایااورتحائفدینے کاحکمہے۔قرآن کریم میں انفاق کاحکم ہے اور اس کے عموم میں عطایا اورہدایا بھی داخل ہیں ۔امام بخاری نے الادب المفرد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ باہم ہدیہ کیا کرو اس سے محبت بڑھے گی۔امام ترمذی ؒنے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہدیہ کرو اس سے حسد دورہوجاتا ہے۔امام ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ ہدیہ کرو اس سے سینہ کا کھوٹ دورہوجاتا ہے اورپڑوس والی عورت پڑوسن کے لیے کوئی چیز حقیر نہ سمجھے اگرچہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو۔پس اس سوچ سےبچوں ، ماتحتوں اور ملازموں کوعیدی دینا کہ وہ خوش ہوں گے نہ صرف جائز بلکہ کارِثواب ہے، حضرت اما م اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد، حضرت حماد رحمہ اللہ عید کے دن پانچ سو افراد کو ایک ایک جوڑا کپڑا اور ایک ایک سو درہم عنایت کرتے تھے۔البتہ عیدی نہ تو عید کی عبادت ہے اورنہ ہی حق سمجھ کرکوئی اس کامطالبہ کرسکتا ہے اورنہ ہی نہ دینے والے کو برا بھلا کہنا یا نکیر کرنا یا اس سے ناراض ہونا درست ہے۔غرباء اورمساکین کوبھی خوشیوں کے موقع پر صدقات وخیرات میں یاد رکھنا چاہیے ،اسی وجہ سے صدقہ فطر وغیرہ کاحکم ہےمگر اقارب اورماتحتوں کو نوازنا بھی ثواب سے خالی نہیں ہے اوراگرماتحت یاکوئی رشتہ دارمحتاج بھی ہوتواسے عیدی دینا درحقیقت صدقہ کرنا ہی ہے۔سير أعلام النبلاء'' ط الحديث (5/ 529)