جبر ا طلاق نامہ پر دستخط لینا
سوال:۔ میری شادی کو سولہ ماہ ہوچکے ہیں،ہم میاں بیوی کو ایک دوسرے سے کوئی شکایت نہیں مگر میرے سسر بضد ہیں کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دوں،اس سلسلے میں انہوں کافی دباؤ بھی ڈالا لیکن میں نے طلاق نہیں دی۔آج سے دو ہفتے پہلے جب میری بیوی اپنی ایک عزیزہ کی شادی کے سلسلے میں میکے گئی ہوئی تھی تو میرے سسر نے مجھے بلایا اور میں آفس سے سیدھا وہاں چلاگیا۔تھوڑی دیر گفتگو کے بعد سسر اور اس کے بیٹوں نے وہی پرانا مطالبہ کہ طلاق دو،دھرانا شروع کردیا،میں نے انکار کیا تو انہوں مجھ پر تشدد کیا اور سخت دھمکیاں دیں،اس کے بعد ایک پرچہ نکالا جس پر طلاقیں لکھی ہوئی تھیں اور مجھ سے اس پر زبردستی دستخط لے لیے،جب کہ میرا ارادہ طلاق دینے کا نہیں تھا اور نہ ہی مجھے طلاق تسلیم ہے،کیا اس طرح زبردستی طلاق لینے سے طلاق ہوجاتی ہے۔(اعظم خان،کراچی)
جواب:۔ اصول یہ ہے کہ اگر دھمکی جان یا عضو کی ہو اور دھمکی دینے والا صرف دھمکا نہ رہا ہو بلکہ کر گزرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور جسے دھمکی دی جارہی ہو اس کا غالب گمان بھی یہ ہو کہ اگر میں نے انکار کیا تو دھمکی دینے والا دھمکی پر عمل کر گزرے گا،جب ان شرائط کے ساتھ جبر اور زور زبردستی کا ماحول پیدا ہوجائے اور اسی ماحول میں شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا جائے اور شوہر جواب میں صرف لکھ کر طلاق دے دے اور زبان سے طلاق کے الفاظ ادا نہ کرے تو طلاق نہیں ہوتی۔آپ کے ساتھ بھی اگر یہی صورت تھی کہ جان کا خطرہ تھا اور وہ جان لے بھی سکتے تھے اور آپ کے دل ودماغ پر بھی خوف غالب ہوگیا تھا تو طلاق نہیں ہوئی۔ اگر ایسا نہ تھا بلکہ وہ صرف دباؤ ڈال رہے تھے یا صرف دباؤ تو نہیں تھا مگر وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے یا کرسکتے تھے مگر آپ کے ذہن پر غلبے کے ساتھ اس کاخوف چھایا ہوا نہیں تھا تو جتنی طلاقیں اس کاغذ میں درج تھیں اتنی طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔