ارتداد کے عوض ملنے والا مال واپس کیا جائے یا صدقہ ؟
سوال
ز: دار الافتاء جامعہ کنز العلوم احمدآباد کیا فرماتے ہے علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص مال کی لالچ میں مرتد ہو کر نصرانی بن گیا کچھ وقت کے بعد اسے احساس ہوا اور وہ پھر سے مسلمان ہو گیا اب سوال یہ ہے کہ جو مال اسے نصرانی بننے کے لئیے دیا گیا تھا کیا اسکا استعمال یہ کر سکتا ہے یا اس مال کو صدقہ کرنا ہو گا یا ان نص رانیوں کو لوٹانا ہو گا؟ س مسئلہ کی تحقیق میں بندہ کو درجہ ذیل عبارتوں کے علا وا واضح کو ئی بات نہی ملی بندہ کو ابھی بھی انشراح نہی ہو رہا ہے کہ اس مال پر کیا حکم لگا جائے اس لئے کے جس وقت یہ مال اس شخص کو میلا اس وقت تو یہ مال حرام و رشوت کے حکم میں تھا لیکن جب وہ شخص مرتد ہو گیا اور یہ مال اسی کی ملک میں رہا تو پھر دو بارا اسلام لانے کے وقت اسکا صدقہ کرنا یا لوٹانا سمجھ میں نہی آرہا ہے کیونکہ مرتد کے مال میں حقوق کے واجبہ جیسے کہ کسی سے لیا قرض یا امانات وغیرہ تو باقی رہتے ہیں لیکن مرتد نے حالت ارتداد میں کمایہ ہوا مال اسی کا رہتا ہے چاہے شراب کو بیچ کر کمایہ ہو ہو قابل تصدق نہی، تو پھر اس مال کو کیسے صدقہ کا حکم لگایا جا سکتا ہے جب کے یہ اسی کی ملک ہے مَال الْمُرْتَد:واما مَال الْمُرْتَد فانه على وَجْهَيْن:أَحدهمَا مَا اكْتَسبهُ قبل الرِّدَّة ,والاخر مَا اكْتَسبهُ بعد الرِّدَّة فَأَما الذى اكْتَسبهُ قبل الرِّدَّة فان الْمُرْتَد اذا قتل اَوْ لحق بدار الْحَرْب فان ذَلِك المَال لوَرثَته يقسم بَينهم بعد مَا تقضي دُيُونه وتنفذ وَصَايَاهُ وتعتق أمهَا أَوْلَاده من جَمِيع مَاله وَيعتق مدبروه من ثلثه فان رَجَعَ مُسلما لم يرد شَيْء من ذَلِك غير انه اذا وجد شَيْء من مَاله فِي ايدي ورثته لم يستهلك أَو فِي ايدى أهل الْوَصِيَّة فَهُوَ احق بِهِ وَهَذَا كُله فى قَول ابي حنيفَة وصاحبيه وابي عبد الله وَفِي قَول مَالك وَالشَّافِعِيّ مَال يكون لبيت مَال الْمُسلمين واما الذى اكْتَسبهُ بعد ردته فانه فى قَول ابي حنيفَة وَمَالك وَالشَّافِعِيّ لبيت مَال الْمُسلمين وَفِي قَول ابي يُوسُف وَمُحَمّد وَأبي عبد الله هُوَ ايضا لوَرثَته من الْمُسلمين كَمَاله الذى اكْتَسبهُ قبل الرِّدَّة.( النتف في الفتاوى ج2 ص 691) اور ان عبارتوں سے بندہ یہ سمجھا ہے کہ : مرتد کے مال کی دو قسمیں ہے ایک وہ جو ارتداد سے قبل کمایہ دوسرے وہ جو ارتداد کے بعد کمایہ اگر اسلامی حکومت ہے تو پہلی قسم کا مال اسکے ورثہ میں تقسیم ہوگا اور دوسری قسم کا مال بیت المال میں جمع کردیا جائے گا لکیں چونکے اسلامی حکومت کا نظام نہی ہے تو وہ اپنا مال خود استعمال کر سکتا ہے لوٹانے کی ضرورت نہی کما فی النتف في الفتاوى برائے کرم رہنمائی فرما کر شکریہ کا موقع انیات فرمائیں اب آپ والا سے مزید رہنمائی کی درخواست ہے سائل دار الافتاء جامعہ کنز العلوم احمدآباد 1436/11/2
جواب
آپ نے جو عبارات ذکر کی ہیں ان میں کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے۔مرتد نے ارتداد سے قبل جو مال کمایا ہواور پھر مارا جائے یا دارالحرب فرار ہوکر چلا جائے تو اس کا مال اس کے ورثاء میں تقسیم ہوتا ہے۔لیکن اس کا مال اس وقت کہلائے گا جب وہ ارتداد سے قبل اس کی جائز ملکیت بھی رکھتا ہو،اگر اس کے پاس غصب،سرقہ یارشوت کے ذریعے مال آیا ہو تو عدم ملک کی وجہ سے وہ اس کا مالک ہی نہیں اور جب اس کی ملکیت ثابت نہیں تو اس کا مملوکہ مال قرار دے اسے مرتد کے ورثاء میں تقسیم بھی نہیں کیا جاسکتا۔اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ فقہاء نے یہ مسئلہ مرتد کے مال کے متعلق بیان کیا ہے اور مال کی اضافت مرتد کی طرف کرنے سے صاف واضح ہے کہ اس کے مال کا بیان مقصود ہے جب کہ مرتد ہونے کے عوض جو مال ملا ہے وہ اس کی ملکیت میں داخل ہی نہیں ہوا ہے۔کسب کے لفظ سے بھی ظاہر ہے کہ مرتد کی کمائی کا بیان ہے اور کمائی سے متبادر جائز کمائی ہی ہے۔تیسرے یہ کہ جومال بلامعاوضہ حرام طریقے سے حاصل ہوا ہو اس سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی اور وہ مال جتنے ہاتھوں میں جاتا ہے ،حرام ہی رہتا ہے جیسا کہ فقہاء لکھتے ہیں کہ الحرمۃ تتعدد مع العلم بھا الا فی حق الوارث وقیدہ فی الظہیریۃ بان الا یعلم ارباب الاموال(درمختار)اس عام اصول کے مطابق ارتداد کے عوض مرتد کو جومال ملا ہے وہ اصل مالکوں کو واجب الرد ہے اور نہ واجب الرد ہے اور نہ ہی خود استعمال میں لاسکتا ہے۔واللہ اعلم